۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
رضا

حوزہ/ اگر کوئی حکومت لوگوں کو اپنے پاس جمع کرنا چاہے اور اس کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرڈالے پھر بھی مذکورہ اجتماع کا عشرعشیربھی جمع نہیں کر سکتی ، چاہئے ترغیب و تر ہیب کا ما حول کیوں پیدا نہ کرے ۔ زیا رت اربعین کے لیے کروڑوں عزاداروں کا ازدحام ہے جسے اقوام کو سبق لینا چاہئے یہ جم غفیر کبھی بھی نا پیدا نہیں ہو سکتا ۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیاؔ،مبارکپور، اعظم گڑھ

حوزہ نیوز ایجنسی | چہلم شہدائے کربلا ایک عظیم الشان معجز نما جلسہ ہے جس میں شرکت کرنے والے خوش قسمت الٰہی نور کی وادی میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی نورانی اور ملکوتی ماحول میں ان لوگوں کی معنوی تربیت ہوتی ہے۔ ان میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کی روح اور بدن میں معنوی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں جو ایمانی کمزوریاں ہوتی ہیں وہ ختم ہوتی ہیں۔ انہیں دنیوی خواہشات کی اسیری سے نجات حاصل کرنے کا علاج ملتا ہے۔ انہیں اخروی زندگی کے کامیاب کرنے کا جذبہ ملتا ہے۔ وہ عالی و متعالی راہوں کے راہی بن جاتے ہیں۔ فضیلت و عزت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ہم نے مختلف مصادر میں دیکھا ہے کہ اس وقت کی عالمی طاقتوں کی کروڑوں لوگوں کے اس اجتماع پرنظر ہے۔ وہ تجز یہ تحقیق میں ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس وقت دنیا میں کوئی مضبوط اور محفوظ ادارہ ہے تو وہ صرف زیارت اربعین کا اجتماع ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے کہ جس میں نفس بشری کی ہر طرح سے تربیت ہوتی ہے۔ اس میں قربانی، عطا اور فدا ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں لوگ بغیر کسی دعوت کے خود بخود جمع ہو جاتے ہیں۔ وہاں پہنچنے کے لئے اخراجات کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ وہ اس راستے میں خرچ کرنے کو سعادت جانتے ہیں۔ جی ہاں! اگر کوئی حکومت لوگوں کو اپنے پاس جمع کرنا چاہے اور اس کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرڈالے پھر بھی مذکورہ اجتماع کا عشرعشیربھی جمع نہیں کر سکتی ، چاہئے ترغیب و تر ہیب کا ما حول کیوں پیدا نہ کرے ۔ زیا رت اربعین کے لیے کروڑوں عزاداروں کا ازدحام ہے جسے اقوام کو سبق لینا چاہئے یہ جم غفیر کبھی بھی نا پیدا نہیں ہو سکتا ۔

آج اس دنیا کی تمام بڑی طاقتیں زیارت اربعین کے روحانی و معنوی اجتماع سے سخت خوف زدہ ہیں کیونکہ یہ اجتماع ایک خالص عبادی اور روحانی اجتماع ہے۔ ایسا اجتماع پیدا کرنا کسی طاقت کے بس میں نہیں ہے۔ اگر دنیا کی تمام حکومتیں یا اسلامی حکومتیں چاہیں بھی کہ ایسا جم غفیر نمودار کریں تو یہ ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ عالم اسلام کے دیگر افراد بھی ایسا اجتماع پیدا نہیں کر سکتے۔ ایسا اجتماع صرف ایک ذات پیدا کرسکتی ہے کہ جس کا نام حضرت امام حسین ؑ ہے ۔ یہ دنیا کی واحد طاقت ہے کہ جو اپنے دامن میں وہ مقناطیسیت رکھتی ہے کہ دنیا کے تمام شرفا کو آپ کے پاس جمع کر لیتی ہے۔ اس اجتماع کے لئے نہ کوئی اعلان کیا جاتا ہے نہ ہی کسی کو دعوت دی جاتی ہے نہ رغبت دلائی جاتی ہے اور نہ کسی کو اس اجتماع میں شرکت کے لئے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ اس اجتماع میں شرکت کے لئے شرکاہی جانی و مالی اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ وہ اپنا وطن چھوڑتے ہیں، رقم خرچ کرتے ہیں اور گھروں کو چھوڑ چھاڑ کر چلے جاتے ہیں۔بعض صاحبان نظر دوستوں نے بیان کیا ہے کہ اس اجتماع کو مغربی ممالک کے ادارے کوریج د یتے ہیں۔انٹر نیٹ پر بھی اس اجتماع اور اس کے اثرات کو پیش کیا جاتا ہے۔

جب زیارت اربعین کا موسم آتا ہے اور یہ ملکوتی اجتماع ملک عراق میں نمودار ہوتا ہے تو اس اجتماع کو پوری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اسے براہ راست دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے اور اپنی آرا قائم کررہی ہوتی ہے۔ چند ماقبل جب علاقائی ریاست کے ذمہ داروں سے اللہ کے دشمن کے لئے اس حسینی آتش فشاں اجماع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بارے میں کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے خاموشی کوہی غنیمت سمجھا پھر بعد میں جواب دیا کہ یہ حسینی ازدحام اب کبھی ختم ہونے والانہیں ہے۔ یہ روز بروز بڑھے گاختم نہیں ہوگا۔ ان لوگوںنے اپنے علاقوں میں کوشش کی کہ اس اجتماع کو منتشر کر دیا جائے اور اس کا خاتمہ کر دیا جائے لیکن یہ ان کے بس میں نہیں ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’ یہ لو گ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ (کی پھونکھوں ) سے اللہ کے نو ر کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نو ر کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار برا ما نیں ۔ ‘‘ (سورہ الصف)

اب عالمی اور علاقائی حکومتوں نے سمجھ لیا ہے کہ وہ اس حسینی طاقت کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے۔ اگر وہ اپنی تمام توانائیاں خرچ کر ڈالیں پھر بھی اس ادارے کو وہ نہ توڑ سکتے ہیں اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی اور ادارہ بنا سکتے ہیں۔ملک عراق مشرق وسطی کے قلب میں ہے اور وہ براعظم ایشیا اور براعظم افریقہ کے سنگم پر ہے۔ علاوہ ازیں وہ مختلف تہذیبوں اور ادیان کے مرکزپر ہے۔ اس کے اردگرد مختلف تہذیبیں ہیں اور ادیان موجود ہیں۔ وہ ایک دھڑکتا دل ہے اور سید الشہداحضرت امام حسین علیہ السلام اس کے دل کے رابطے ہیں۔ حضرت امام حسین ؑ کے پاس تمام طاقتیں موجود ہیں۔

اس وقت ہر جگہ مواصلاتی باوثوق ذرایع موجود ہیں۔ اس مقام پر ہم اپنی بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تا کہ پھر دوبارہ یہ بات نہ کرنا پڑے اربعین کے موسم میں دسیوں لاکھ نفوسں دنیا بھر سے کربلا میں جمع ہوتے ہیں اور جب وہ کربلا کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں تو وہ ہر لحاظ سے محفوظ ہوتے ہیں۔ ایک کوئی ایک مثال دنیا بھر کے ترقی یافتہ متمدن ممالک میں دکھائی جائے کہ جہاں اس قدر لوگ جمع ہوں اور حکومتیں پریشان نہ ہوں اور لوگ پرامن رہیں۔ لوگوں کی حفاظت بھی ہورہی ہو اور ان کی غذا وخوراک کا انتظام بھی ہو، ایسا ایک نمونہ دنیا میں دکھا دو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ ہم دعوی کرتے ہیں کہ اس تم کامحفوظ اور پرامن اجتماع کہیں نہیں ہوسکتا اور اگر ہوسکتا ہے تو وہ صرف اربعین کے موقعے پر ہی ہوسکتا ہے۔ کروڑوں کا یہ اجتماع ایک خطے ایک منطقی و بقے میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں اور ان سب کا سفر کربلا میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جو چند ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ایسے اجتماعات حکومتیں حکمت عملی اپناتی ہیں، تمام بلدیاتی نظاموں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ہمارا دعوی ہے کہ جس قدربھی حکومیں منظم ہو کر انتظام کریں پھر بھی ان کا انتظام ناقص رہے گا۔ آپ کے سامنے حج بیت اللہ کا سالانہ اجتماع ہے وہ زیادہ سے زیادہ تیس لاکھ تک ہوتا ہے جو چند دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ حکومت کا بھر پور انتظام ہوتا ہے۔ انتظامات بھی مکمل ہوتے ہیں۔ عالیشان بلڈنگوں میں رہائش ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی حجاج شکایات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اربعین کی طرف دیکھیں لوگ سینکڑوں کلومیٹر فاصلہ طے کررہے ہوتے ہیں۔ انتظامی گورنمنٹ ہوتی ہے اور نہ کوئی جماعت، صرف مومنین ہوتے ہیں جو اس پروگرام کو سنبھالے ہوتے ہیں۔ ہر چیز کی فراوانی ہوتی ہے۔ امن ہوتا ہے، سکھ ہوتا ہے، سکون ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہرطرف جذبہ ایثار کارفرما ہوتا ہے۔مشرق وسطی میں امریکہ کی طرف سے تعینات فوج کے اعلی کمانڈر نے اربعین کے اجتماع کو دیکھ کر کہا تھا:میں اس امر کا اعتراف کرتا ہوں کہ اے شیعوں تمہارا کوئی جواب نہیں جس قدرم مہذب اور متمدن ہواس طرح دنیا بھر میں کوئی بھی نہیں ہے۔ تمہاری تہذیب وثقافت کا مقابلہ نیویارک اور پیرس بھی نہیں کر سکتے جی ہاں یہ حقیقت ہے۔یہ تعجب کا مقام نہیں ہے۔ دنیا بھر میں کہیں کوئی اجتماع ہو اس میں اتنے مسائل اورحوادث جنم لیتے ہیں کہ الامان۔

باوثوق ذرائع سے بارہا سنا ہے کہ مغرب کے متمدن ممالک میں جب چند ساعات کے لئے بجلی غائب ہوئی تو انہیں ساعات میں ہزاروں حوادث ہوئے۔ لوگوں نے قانون امن کی دھجیاں اڑادیں۔لیکن زیارت اربعین کے موقع پر اس قسم کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ اعجاز ہے۔ یہ اعجاز و معجزہ ہے جو اہل بیت اطہارؑ کی تعلیمات سے متعلق ہے۔ اہل بیت رسولؐ نے دنیا کو تہذیب و تمدن و حضارت کا وہ درس دیا جس کا اظہار اربعین کے موقع پر دنیا کے سامنے نظرآتا ہے۔

٭٭٭٭

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .